بدھ، 13 اپریل، 2016

نلکا بند کیا تھا؟



یہ آج سے چار سال پرانی بات ہے جب میں نوکری کے سلسلے میں ایک خلیجی ملک میں رہ رہا تھا. میں نے اور ایک دوست (جو کہ آفس کولیگ بھی تھا) نے مل کر ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لیا ہوا تھا. عموماً جمعرات کی رات جو کے ویکینڈ نائٹ کہلاتی تھی دوست یار مل کر ڈنر پر جایا کرتے تھے. اس روز بھی ایسا ہی تھا جمعرات کی رات تھی ہم دونوں تیار ہوئے اور دیگر دوستوں کے ساتھ ڈنر پر چلے گئے. اتفاقاً اس رات واپس آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی، جب گھر واپس پہنچے اور دروازہ کھولا تو سامنے پانی کا سمندر ہمارا منتظر تھا. جانے سے پہلے ہم میں سے کسی ایک نے باتھ روم کا نلکا کھلا چھوڑ دیا تھا جس سے پانی گھنٹوں بہتا رہا اور بالآخر باتھ روم سے باہر آگیا، وہ تو پانی کی ٹنکی خالی ہوگئی ورنہ شاید پانی گھر سے باہر تک نکل آتا. خیر اب کیا جاسکتا تھا ہم دونوں پانی کو صاف کرنے میں لگ گئے. قریباً دو گھنٹے کی مسلسل محنت کے بعد گھر مکمل طور پر صاف ہوا. تھکاوٹ سے چور ہم اپنے بستروں پر گرے اور سو گئے. مشکل سے صبح کے پانچ بجے ہونگے کہ میرے کانوں میں دوست کی آواز گونجنے لگی، میں چونک کر اٹھا تو وہ بڑی سی گالی دیتے ہوئے بولا "یار پانی پھر بھر گیا!" اور میں نے نیم بیہوشی کی حالت میں اس سے صرف اتنا پوچھا، "نلکا بند کیا تھا؟" اس نے منہ بنا کر نفی میں جواب دیا اور ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے. رات کے کسی پہر جب موٹر چلی تو ٹنکی میں پانی آتا رہا اور نلکا کھلا ہونے کی وجہ سے پھر سے پورے گھر میں پھیل گیا اور ہماری گھنٹوں کی محنت رائیگاں  ہوگئی!

کچھ ایسی صورتحال سے اس وقت ہمارا ملک بھی گزر رہا ہے. دسمبر 2014 میں جب آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تو پوری قوم میں شدید غم و غصہ تھا، حکومت اور فوج اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شمالی وزیرستان میںپہلے جاری آپریشن ضربِ عضب میں مزید تیزی لے آئے. اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے بیٹھ کر اتفاق رائے سے ایک نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس میں مدارس کی رجسٹریشن، نفرت پر مبنی لٹریچر کی روک تھام، مسجد کے لاو ¿ڈ اسپیکر سے خطبات پر پابندی، دہشتگردوں کے نیٹورک اور بیرون ملک سے ملنے والی فنڈنگ کی روک تھام جیسے اہم اقدامات شامل تھے لیکن افسوس اس پر عمل نا ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ گیا. بظاہر ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشتگرد کارروائیوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی اور پوری قوم بشمول حکومت اور فوج اس سراب میں جینے لگے کہ ہم نے دہشتگردی کے جن کو ہمیشہ کے لیے بوتل میں بند کردیا ہے۔                  

پھر ایک دن حکومت نے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل اور سپریم کورٹ سے سزا یافتہ مجرم ممتاز قادری کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا اور بالآخر جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بروز پیر 29 فروری 2016 کو پھانسی دے دی گئی. لیکن پھانسی کے رد عمل میں ہونے والے ملک گیر احتجاجوں نے سب کو ایک بار پھر حیران کردیا، ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ممتاز قادری کے جنازے میں شرکت کی. حکومتی حکمت عملی کے تحت الیکٹرانک میڈیا پر مکمل بلیک آو ¿ٹ رہا پر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں ممتاز قادری کی شان میں نا صرف قصیدے لکھے گئے بلکہ حکومت کو سخت ترین تنقید کا نشانہ بنایا گیا، یوں محسوس ہوا جیسے پورا پاکستان اس فیصلے کے خلاف کھڑا ہو. جس انتہاپسندی اور دہشتگردی کے جن کو بوتل میں بند کر کہ سب سمجھ رہے تھے کہ اس سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پا لیا وہ پہلے سے کہیں ذیادہ توانا اور طاقت ور ہوکر ہمارے سامنے کھڑا ہے . اس موقع پر ہمیں پھر خود سے اور حکومت سے یہ سوال کرنا پڑے گا کہ کیا نلکا بند کیا تھا؟ اور وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو پا رہا؟ اور بجائے سر پکڑ کر بیٹھنے کہ حکومت کو اس بات پر مجبور کرنا پڑے گا کہ وہ ضربِ عضب جیسے صفائی والے آپریشن کے ساتھ ساتھ نلکا بند کرنے یعنی نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد کو یقینی بنائے ورنہ پانچ دس سال بعد ہم پھر ایسی ہی کسی صورتحال سے دوچار ہونگے اور کرنے کے لیے سوال پھر وہی ہوگا...نلکا بند کیا تھا؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں