جمعرات، 23 جون، 2016

امجد صابری ۔۔۔ شہادت ۔۔۔ 30 کروڑ امداد


پچھلے کئی روز سوشل میڈیا  پر  خاصے مصروف  گزرے؛  پہلے حمزہ عباسی، پھر احمدی ڈاکٹر کا قتل اور پھر قندیل بلوچ اور مفتی عبدالقوی کا معاملہ۔ اس لیے سوچا کہ کل کا دن کام کاج پر توجہ دینی ہے اور  سوشل میڈیا سے زرا دور ہی رہنا ہے، بس کبھی کبھار سرسری نگاہ ڈال لی۔شام ساڑھے چار بجے ایک دوست کا واٹس ایپ مسج آیا کہ امجد صابری کو 'شہید'  کردیا گیا ہے۔ سن کر بہت افسوس ہوا پر   ذہن پر کافی زور دینے کے باوجود یاد نہ آیا کہ امجد صابری کب اور کہاں  جہاد کے لیے گئے تھے۔ خیر ٹوئیٹر کھولا تو معلوم ہوا کہ آپ کو دن دھاڑے لیاقت آباد کہ گنجان آباد علاقے میں موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے گولیاں مار کر 'قتل' کر دیا۔ یہ وہی علاقہ ہے جسے رینجرز آپریشن کے ذریعے محفوظ بنانے کہ دعوے آئے دن کیے جاتے ہیں۔موقع پر موجود سنگ دل افراد وڈیوز اور تصاویر بنا بنا کر سوشل میڈٖیا پر ڈالتے رہے جسے خوب شئیر کیا جاتا رہا جس سے ہماری قوم کی مجموعی عقل و دانش کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

ہمیشہ کی طرح ٹی وی اور سوشل میڈیا   پر یہ بحث جاری رہی  کہ آخر امجد صابری کا کیا قصور تھا  جو اس بے دردی سے مارا گیا اور حملہ آور آخر کون تھے؟؟؟ کچھ لوگ اسے ایک سیاسی قتل قرار دے رہے تھے جب کہ اکژیت کی رائے  یہ ہے کہ اس کے پیچھے وہی عناصر ہیں جو مذہب اور عقائد کے  اختلاف پر  پہلے کافر و گستاخ قرار دیتے ہیں پھر موقع پا کر 'شہادت' کے درجے پر پہنچا دیتے ہیں ۔۔۔ جیے تو کافر تھے ،مرے تو شہید ہوئے!

کچھ دیدہ دلیر  یہ بھی کہتے پائے گئے کہ بھیا اتنا واویلا کیوں کرتے ہو گلوکار /  قوال ہی تو تھا  کوئی  عالم دین تھوڑی نہ تھا اور  سارا  دن شرکیہ قوالیاں ہی تو گاتا تھا ۔  حالانکہ صابری صاحب نے ان جیسوں کی تسکین کے لیے 'بھر دو جھولی میری یا محمد'   کو تبدیل کر کہ ' بھر دو جھولی میری یا الٰہی' بھی  کر دیا  تھا لیکن انہیں کیا علم تھا  کہ عبداللہ کے دل کی تسکیں تب تک نہ  ہوگی جب تک آپ کو خون میں لہو لہان نہ دیکھ لے۔

خیر  میں ٹوئیٹر پر مختلف لوگوں کی امجد صابری کے قتل سے متعلق آراء پڑھتارہا لیکن ساتھ ہی ساتھ میرے دماغ میں نہ جانے  کیوں  اقبال کے شعر کا  یہ مصرع اٹکا رہا،

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

میں ذہن میں بار  بار  یہ مصرع دہراتا رہا اور سوچتا رہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ میرا ذہن اس سے باہر نہیں نکل پا رہا۔ تبھی اچانک میری نگاہ ایک ٹوئیٹ پر پڑی  جس میں خیبرپختوخواہ حکومت  کے بجٹ میں  دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے لیے  30 کروڑ کی امداد  مختص کی گئی تھی۔ (یاد رہے یہ وہی دارلعلوم ہے جہاں سے  ملا  عمر جیسے نامور طالبان کمانڈر ز نے     تعلیم اور تربیت حاصل کی اور دنیا بھر میں اسے جہاد یونیورسٹی کا  اعزاز دلوایا)۔۔۔  حالانکہ یہ چند روز پرانی خبر تھی اور میں اس پر سیر حاصل تنقید بھی کر چکا تھا  لیکن اس  کےاچانک سامنے آجانے نے   جیسے ذہن میں الجھی گتھی ہی سلجھا دی۔

بچپن سے ہمیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ بحیثیت مسلمان دنیا میں سب سے افضل موت شہادت کی موت ہے اور ایک مومن ہمیشہ اسکے لیے بیتاب  رہتا ہے کہ کب اسے شہادت کی موت نصیب ہو۔کچھ  لوگ اس کے حصول کے لیے شام وعراق کا رخ کرتے ہیں تو کچھ جموں و کشمیر  اور افغانستان کا۔  غالبا کل جب امجد صابری  گھر سے روانہ ہوئے ہونگے  تو ان کا مطلوب و مقصود بھی  شہادت ہی ہوگا،  یہ ہی وجہ ہے   جو  ایک لمحے کی  تاخیر کیے بغیر ان کو   شہید قرار دے دیا گیا۔  یہ ہی  بات ہماری ریاست نے بھی بہت اچھی طرح سمجھ لی ہے، جب کبھی کوئی ایسا سانحہ رونما ہوتا ہے جہاں ریاست  کی ناکامی   پر سوال اٹھایا جاتا ہے  تو  فورا  وہاں شہادت کے تمغے بانٹ  دیے   جاتے   ہیں تاکہ مومنین کے دل کی تسلی ہو جائے  چلو کچھ اور  نہ سہی کم از کم شہادت تو ملی۔ 

اب اس ضمن میں مزید کام ہو رہا ہے اور ریاست نے شہادت کے تمغوں کو گھر گھر پہنچانے کا انتظام کرنے کی ٹھان لی ہے۔ جس کے لیے دارالعلوم جیسی جہادی فیکٹریوں کو عوام کے ٹیکس کے پیسے سے کروڑوں کی امداد  دی  جائے  گی تاکہ وہ منظم طریقے سے اس کارخیر کو آگے بڑھا سکیں۔ اس کے لیے ٹیکس کا پیسہ  اس لیے استعمال کیا  جا رہا ہے کہ ایک تو تیل کی گرتی قیمتوں کے باعث  اب برادر عرب  ممالک اس میں  ذیاد ہ  حصہ ڈالنے کو رضا مند نہیں ۔دوسرا عوام کی  شراکت داری ہونا بھی   نہایت ضروری ہے تاکہ  ثواب کے ساتھ ساتھ  ہم اور  آپ  (ٹیکس دینے والے) کل کو ٖ ٖفخر سے کہ سکیں کہ  فلاں فلاں شخص کی شہادت میں میرا بھی  برابر کا حصہ ہے ،  الحمداللہ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں