منگل، 12 اپریل، 2016

آف شور کا شور

پچھلے کئی روز سے ملک ایک سیاسی طوفان کی ممکنہ آمد کے شور سے گونج رہا ہے. اگرچہ ماہرین کا خیال ہےکہ طوفان ابھی ساحل سے کچھ فاصلے پر ہے لیکن اس کا زور ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا، دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔ کوئی نیوز چینل لگا لیں سرخیاں سیاسی بیان بازیوں، دھرنے کی دھمکیوں، استعفوں کے مطالبات، کمیشن بنانے کی تجاویز جیسی خبروں سے بھری پڑی ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے اب  میڈیاضمیر جگانے والےاس سرکس کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا جو اس سے قبل ہرپیر کی دوپہر کئی گھنٹوں تک براہ راست نشر کیا جاتا تھا ۔ بلکہ سننے میں آیا ہے میڈیا کی عدم توجہ کے باعث بہت سے ضمیر جاگ کر پھر سے گہری نیندسونے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ حد یہ کہ طاہرشاہ کا نیا گانا 'اینجل' بھی قوم کی توجہ اس شور سے ہٹانے میں بظاہر ناکام دکھائی دیا۔

اگردیکھا جائے تو ہم وہ قوم ہیں جو بڑے سے بڑا سانحہ بڑی آسانی سے فراموش کرجاتے ہیں چاہے وہ آرمی پبلک اسکول پرحملہ ہو یا چند روز قبل گلشن اقبال پارک میں ہونے والا دھماکا جس میں بچوں سمیت 70 سے زائد ہلاکتیں اور لگ بھگ 300 لوگ زخمی ہوئے۔ چند روزتک آہنی ہاتھوں سے نبٹنے اورآخری دہشتگرد کے خاتمے تک کمر بستہ ہوکر لڑنے کی بازگشت سنائی دی اور  پھر زندگی معمول پر آگئی۔ اب نا کسی اخبار نویس کو اس کی فکرہے کہ اس ضمن میں کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں نا ہی سوشل میڈیا پر موجود محب وطن ٹولے کواس میں کوئی دلچسپی  جو رات دن آئس لینڈ اور برطانیہ کی جمہوریت کی  مثالیں دیتے نہیں تھکتا۔

ایمانداری  سے بات کی جائے تو یہ آف شور والا معاملہ یقیناً ایسا نہیں کہ اس کونظر انداز کر دیا  جائے، اگر کسی نے ملکی دولت لوٹ کر یہ آف شور کمپنیاں بنائی ہیں تو ان کو قانون کے کٹہرے میں لانا نہایت ضروری ہے۔ اس میں بھی کوئی شک  نہیں کہ اس معاملے پر  تحریک چلانا ، لوگوں کو متحرک کرنا، دھرنا دینا لوگوں کا آئینی حق ہے۔ بلکہ اب تو بات قوم سے خطاب تک جا پہنچی ہے اور  ہمارے ہر دل عزیز خان صاحب  اس معاملے پر قوم سے ایک عدد پریس کانفرنس نما خطاب کربھی چکے ہیں۔ خطاب میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ  اب وہ  حکومت کو مزید چلنے نہیں دیں گےاور اگلا دھرنا  رائیونڈ محل کے  سامنے کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں ہیں۔ وہ روز اول سے اس بات پر قائم ہیں کہ کرپشن اورٹیکس چوری  پاکستان کے سب سے بڑے مسائل ہیں اوراب تو  بقول ان کے منتخب وزیراعظم اس میں ملوث پائے گئے ہیں (حالانکہ ابھی تفتیش ہونا باقی ہے)۔ یہ الگ بات ہےکہ پی ٹی وی پرشیروانی پہن کر خطاب کرنے کی ان کی دیرینہ  خواہش پوری نہ ہوسکی پر اب اگلے الیکشن میں  وقت ہی  کتنا رہ گیا ہے۔ بس ڈر یہ ہے کسی روز کوئی یہ نہ پوچھ بیٹھے کہ خان صاحب انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے قوم سے خطاب کب کر رہے ہیں۔

شور اس قدر بڑھ گیا ہےکہ وزیراعظم کو ترکی سمیت پڑوسی ملک کے دارلحکومت کراچی تک کا دورہ ملتوی کر نا  پڑگیا اور اب وہ علاج  کی غرض سے اپنے آبائی گاؤں لندن کے ایک چھوٹے سے ہسپتال تشریف لے جا رہے ہیں۔ امید ہے جلد میاں صاحب اس طرز کا ہسپتال اسلام آباد  میں بھی بنوائیں گے تاکہ ہر بار طویل سفرکرکے گاؤں نا جانا پڑے۔ ابھی پچھلے دنوں اپوزیشن لیڈر (عمران خان نہیں خورشید شاہ) نے بھی  قومی اسمبلی میں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور صاف لفظوں میں بتا دیا کہ حکومت اس معاملے پر ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے جو کہ ناقابل قبول ہے۔ پاناما سے تعلق رکھنے والے پپیلز پارٹی کے کچھ سینئر رہنما ان کی بات سن کر زیر لب مسکراتے رہے۔ جواب میں وزیر داخلہ چوہدری نثار  نے  پوری ذمواری (ذمہ داری)  کے ساتھ پریس  کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر اور  پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک نامور بیرسٹر کو خبردار کیا کہ ان کی کرپشن کی فائلیں وزرات داخلہ میں محفوظ ہیں جو وقت آنے پر کھولی جاسکتی ہیں۔معماملات  کے بگڑنے  کی  ذمہ دار ی حکومتی ٹولے پر ذیادہ عائد ہوتی ہے جو بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر الزامات کا جواب دینے کہ بجائے نا صرف اپنے سیاسی حریفوں کو حدف کا نشانہ بنا تا رہا ہے بلکہ ان سے جڑے فلاحی اداروں پر بھی بے جا تنقید سے باز نا آیا۔

وزیراعظم  نے اپنے خطاب  میں جس کمیشن کے بننے کا وعدہ کیا اس کے سربراہ کےلیے بس اب اخبارات میں اشتہار دینا باقی ہیں کیونکہ کوئی ریٹائرڈ جج اس کمیشن کا بیڑا اٹھانے کو تیار نہیں، ویسے بھی پاکستان میں بننے والےکمیشنوں کے انجام سے سب ہی واقف  ہیں۔ حکومت کے لیے ایک چیلینج یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کو ایسا کوئی کمیشن قابل قبول نہیں جس کا نیب اور ایف آئی اے جیسے تحقیقاتی اداروں پر کوئی اثر ورسوخ  نا ہو۔ اگر کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (TORs) میں ایسی شق شامل کربھی لی جائے تب بھی  اپوزیشن کی تسلی نا ہوگی کیونکہ یہ ادارے  بالآخر حکومت کو جوابدہ ہیں۔

لگتا یہ ہی ہے کہ طوفان کا یہ شورمستقبل قریب میں تھمنے والا نہیں۔ اب دیکھنا  یہ ہے کہ طوفان ملک کے ساحلوں سے ٹکرا جائے گا  یا کسی اور سمت مڑ جائے گا (یا موڑ دیا جائے گا)۔ نتیجہ جو بھی نکلے  یہ بات طے ہے کہ اس کے ثمرات موجودہ حکومت کے لیے خوش آئند نہیں ہوں گے۔آخر میں اس امید کے ساتھ اختتام کروں گا کہ شاید ایسا ہی طوفان کسی روز بڑھتی   ہوئی انتہاپسندی اور دہشتگردی کے  خلاف بھی  آئے گا جس کے  آنے کا شور ایوانوں میں بیٹھے سیاستدانوں کو بلآخر اس بات پر مجبور کردے گا کہ  وہ اس  مسئلے کے حل تک ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے رہیں  اورحکومت کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیں کہ اب اس معاملے میں ٹال مٹول کی مزید کوئی گنجائش نہیں۔

1 تبصرہ: